وہ تشنگی ہے کہ دل چشم نم پکارتا ہے

وہ تشنگی ہے کہ دل چشم نم پکارتا ہے
پکارتا بھی اگر ہے تو کم پکارتا ہے
یہ کیسا ضعف در آیا ہے جان میں میری
ذرا سا تیز چلا ہوں تو دم پکارتا ہے
اگرچہ آتی ہے ہر سمت سے صدا تیری
مجھے یہ لگتا ہے تو پھر بھی کم پکارتا ہے
جو سانس میں تجھے دیتی ہیں سسکیاں آواز
تو دھڑکنوں میں تجھے زیروبم پکارتا ہے
اگر ذرا بھی کبھی سکھ کا سانس لیتا ہوں
تو ہر طرف سے مجھے تیرا غم پکارتا ہے
یہ کون شخص ہے جس کا یقین قائم ہے
یہ کون ہے جو ابھی تک کرم پکارتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *