وہ جو خواہشات تھیں دھوپ والی زمین پر

وہ جو خواہشات تھیں دھوپ والی زمین پر
تہِ خاک ننگا بدن کسی کا پکار اٹھا
وہ جو خواہشات تھیں دھوپ والی زمین پر
وہ جو کوئی نقش بنا سکیں نہ جبین پر
مجھے سانپ بن کے لپٹ رہی ہیں
جھپٹ رہی ہیں دماغ پر
کوئی رونے والا نہیں ہے ان کے سراغ پر
کوئی رونے والا بُلا کے لائیں کرائے پر
یہ سرائے ایسی نہیں کہ اس میں ٹھہرنے والا پلٹ سکے
وہ جو رشتے پاک بنے ہوئے تھے
وہ احترام کو کتنے کیڑے مکوڑے مٹی میں ڈال کے اسے لے لے پھرتے تھے ہر جگہ
کسی کونے کھدرے میں رکھ کے آتا تھا میں جنہیں کسی
بے حیائی کے خوف سے
مرے دل کے پچھلے مکان سے
بڑی دور بیٹھ کے مارتے ہیں ، پکارتے ہیں غرور سے
میری جاں دبوچتے، نوچتے ہیں کہ جیسے میرا وجود بھی کوئی لوٹ ہے
سدا سوچتے ہیں کہ جھوٹ جھوٹ ہے چاہے جتنا چھپا لو
سچ کے غلاف میں
کوئی بولتا ہے خلاف بھی سرِ دل تو کان لگا کے سن
تہِ آب دفن ہے روشنی
تہِ کوہسار ہے زندگی
تہِ آسمان سراب ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *