اسے آنسوؤں سے بھگوتا رہتا ہوں رات دن
یہ پہاڑ دل، یہ براق دل، یہ جوان دل
غم بے پناہ کے بوجھ سے نہ نکل سکا
کسی اجتماع کا رعب ہی تھا کہ سادگی
تھی جہاں جہاں پہ پگھل پگھل کے ہوا ہوئی
مرا رخ بدلتا ہے راستے میں یا شہر کا
یہ تو اپنے اپنے مزاج کا ہے مقابلہ
یہ حیات اگر کسی زندہ درد میں ڈھل گئی
تو سمجھ لو آج کے دن سے موت کی موت ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)