جو خدا کی ہستی و نیستی کا مدار تھے
کہیں بچپنے کے کسی سبق کا قصور تھا
یہ جو آرزو کے حصار میں تھیں شکایتیں
مجھے سب سے زیادہ اسی سے خدشہ ہوا کہ جو
صفِ دشمناں سے الگ تھلگ تھا کھڑا ہوا
ہمیں آج بھی تری بے قراری پہ بحث ہے
وہ مرے لیے تھی یا تجھ کو اپنے ہی آپ تھی
وہ لیے ہوئے ہمیں پھر رہا ہے کہاں کہاں
ہمیں خوش گمانی کے راستوں کی خبر نہ تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)