جوان ہوا
تو بدن کو بھی
ریاض کے پتھریلے مرحلوں سے گزارا
بلکہ اس نے کیا گزارا
سرابی نے گزارا
بلکہ سرابی نے بھی کیا گزارا
اس محبت نے گزارا
جو پیدا ہوتے ہیں
وہ اپنے ساتھ لے کے آیا تھا
جیسے کوئی ولی یا امام
اپنے ساتھ پیدائش ہی سے
کوئی منصب
کوئی ذمہ داری
کوئی معجزہ لے آتا ہے
وہ ولی یا امام نہیں تھا
لیکن محبت ساتھ لے کے آیا تھا
اور یہی سمجھتا تھا
سرابی لے کے آیا ہے
پاگل کہیں کا
ریاضتیں ہوں یا مسافتیں
دیوانگی مانگتی ہیں
دیوانگی اس کے پاس بہت تھی
محبت عشق میں بدل جائے
تو جنوں میں بدلتے، دیر نہیں لگاتی
وہ سب مرحلوں سے گزر رہا تھا
بار بار اور پلٹ پلٹ کے گزرتا
پھر لوٹ آتا
پھر گزرتا
وہ ایک دریا تھا
جسے آنا اور گزرنا تھا
وہ ایک موسم تھا
جسے بار بار پلٹنا تھا
تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ
وہ لوٹ کے آیا تو بدلا ہوا تھا
اب وہ ہنستا تھا
بہت زیادہ
بات بات پہ ہنس ہنس پڑتا اور ہنساتا
جہاں جاتا
ایک ہنسی
ایک خوشبو بکھیر دیتا
اسے چھپ کے رونا آگیا تھا
وہ جان گیا تھا
چوری چھپے بہائے ہوئے آنسو
امر ہو جاتے ہیں
وہ یہ بھی جان گیا تھا
آنسو ہی صرف اپنے ہوتے ہیں
اور ہنسنا سب کا
اسے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا
اپنا دکھ، بس اپنا دکھ ہوتا
فرحت عباس شاہ