کیا کیا نہ کیا اس دل بن باس کی خاطر
کچھ ایسے بھی پھرتے ہیں یہاں گھات لگائے
جیسے کوئی خونخوار پھرے ماس کی خاطر
میں بادشہ درد غلامی میں تری ہوں
دل نام کے اس پگلے ترے داس کی خاطر
ننھے علی اصغرؑ تری قربانی پہ قرباں
خوں کیوں نہ بہا میرا تری پیاس کی خاطر
ہونٹوں کو ترے ترسے ہے رس میرے رسیلے
بے چین رہے گل بھی تری باس کی خاطر
فطرت کے بھی کچھ ایسے تقاضے ہیں مری جاں
تتلی نظر آئے نہ کبھی گھاس کی خاطر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)