دلاسہ دے رہے ہو خواب میں تم اور میں پتھر ہوں
عجب ماحول ہے
سیٹی بجاتی ریل رک کر رو رہی ہے
نیم تاریکی کی مدہم سر سراہٹ
سر میں آ کر دھمدھماتا دل
شکستہ کر رہے ہیں
اور زمیں کے ایک جانب
ٹوٹ کے گرتا ہوا اک آسمان زرد
پیلا شور
کانوں کی لوؤں کی سنسناہٹ
اور خلا کا یخ بہ یخ کنٹوپ
ٹھنڈا کر رہا ہے چُرمُرے اعصاب کو
اور میں تو ساکت ہو چکا ہوں، ساکت و سامت
بہت ہی دور سے مجھ کو دلاسہ دے رہے ہو تم
بہت ہی دور سے مجھکو دلاسہ دے رہے ہو خواب میں تم
اور میں پتھر ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)