یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں

یہ تو آتا ہے سمجھ کچھ جو ستم جھیلتے ہیں
اس کا کیاکہیے کہ جو لوگ کرم جھیلتے ہیں
ایک مدت سے پڑے تیری عنایت کے طفیل
سکھ کے اک خواب کی پاداش میں غم جھیلتے ہیں
یہ کوئی اور طرح کا ہے مجرّد صدمہ
نا خوشی ہے نہ کوئی دکھ ہے جو ہم جھیلتے ہیں
رات چبھتی ہے نگاہوں کو نہ دن چیرتا ہے
ہم بڑے شوق سے سب تیری قسم جھیلتے ہیں
ایک چاہت ہے کہ دل جس میں ہے رہرو فرحت
ایک صحرا ہے کہ ہم جس میں قدم جھیلتے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *