میں ترا کون ہوا کرتا ہوں
دیکھ کو کوئی بھی رستہ فرحت
تیرے آنے کی دعا کرتا ہوں
ایک بس تیری رضا کی خاطر
ساری دنیا کو خفا کرتا ہوں
شہر برباد بھی ہو جاتے ہیں
شہر والوں سے کہا کرتا ہوں
میں محبت کو ہوا ہوں پیدا
آبشاروں میں رہا کرتا ہوں
شب ڈھلے روز تری یاد سے میں
کاٹ کر خود کو جدا کرتا ہوں
رات کی سیر کیا کرتا ہوں
چاند کے سنگ اڑا کرتا ہوں
اپنے ہر خواب میں اب تو فرحت
میں تجھے ڈھونڈ لیا کرتا ہوں
میں بھلا روتا کہاں ہوں یارو
آنکھ سے اشک رہا کرتا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)