مجھے ڈس لیا ہے
کسی روّیے کے سانپ نے
بڑا زہر تھا
مری پور پور میں لاش بن کے سما گیا
کبھی نیلے رنگ کی چادروں میں لپیٹ کر
مجھے آسمان میں دفن کرتی ہے زندگی
کبھی سیاہ اوڑھنی اوڑھ کر
مرے ساتھ مرتی ہے زندگی
جو سفید رنگ کفن کا ہے
یہ تو فالتو ہے
دل و دماغ کے ہولناک سکوت میں
یہ خیال و خواب کی ارتھیاں جو پڑی ہیں وقت کے صحن میں
مجھے بین کرنا ہیں اونچی اونچی صداؤں میں
مجھے کاندھا دینا ہے، ارتھیوں کو یہ رسم ہے
مجھے سوگواروں کے سرد کندھوں کو تھپتھپا کے
دلاسہ دینا ہے روز مرّہ رواج کا
یہ جو سانپ سانپ کا کھیل ہے
کوئی سانحہ نہیں آج کا
کبھی جاتے جاتے پلٹ ذرا
کبھی آستین اُلٹ ذرا
فرحت عباس شاہ