یہ جو مرنے والے ہیں کب کسی کے ہوئے بھلا

یہ جو مرنے والے ہیں کب کسی کے ہوئے بھلا
یہ تو مر گئے تھے
کہاں سے آ گئے لوٹ کر
انہیں کیسے چھوڑا ہے خاک نے
انہیں کیسے پہنا ہے پھر سے دامنِ چاک نے
یہ جو آنسو آنسو بہا گئے تھے ہماری چشم وِداع کو
انہیں کس نے پھر سے بتا دیا
کہ زمین پھر سے ہے نَم ، مچلتی ہیں بارشیں
مِرے پیرہن پہ ملول مُشک کی خوشبوئیں
میری بند آنکھوں پہ زرد رنگ کی پتیاں کسی دل دریدہ گلاب کی
انہیں کس نے پھر سے دِکھا دیا
کہ ہمارے چہروں پہ لوٹ آئی ہیں رونقیں
وہ جو ناخنوں سے تراشتے تھے ہماری روح کے گھاؤ
دور چلے گئے
وہی پل تھے خیر کی دشمنی میں عروج پر
جہاں لوگ رکھتے تھے چھپ چھپا کے سکون کو
وہ جگہ بھی صاف نہیں رہی
وہاں دھول پھرتی ہے ٹہلتی
یہ جو مرنے والے ہیں
کب کسی کے ہوئے بھلا
یہ تو دھول ہیں، یہ تو اہلِ درد کی بھُول ہیں
بھلا ان سے لوگوں کا درد بانٹا گیا کبھی
یہ تو اجنبی
یہ تو غیر ہیں
یہ تو بے وفا ہیں ، پرائے ہیں
یہ تو مر گئے تھے
کہاں سے آگئے لوٹ کر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *