یہ تو موت ہی کے گھراؤ ہیں
مرے دل کا اپنا عروج ہے
مری شخصیت کے سبھاؤ ہیں
مرے انگ انگ میں آج تک
تری چاہتوں کے رچاؤ ہیں
مری روح میں بھی ہے آگ سی
مرے خون میں بھی الاؤ ہیں
مری نظم تو مرا درد ہے
مرے شعر تو مرے گھاؤ ہیں
ترے دشمنوں کی طرف بہت
مری جان اب کے جھکاؤ ہیں
یہ جو آبشاریں ہیں سامنے
مرے آنسوؤں کے بہاؤ ہیں
ترے آنسوؤں کے سبب صنم
مرے آئینوں میں کٹاؤ ہیں
جو ہیں آئے دن کی مصیبتیں
یہی زندگانی کے داؤ ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)