یہ جو موت ہے

یہ جو موت ہے
یہ اصول ہے
کون کوہ کن، کوئی کاریگر
کسی کہکشاں میں دراز ہے
کوئی کوچہ کوچہ سفر میں دور نکل گیا
جہاں کائنات نے تھک کے گرنا ہے ایک دن
وہاں وقت پہلے سے ہانپ کانپ کے سوچکا
یہ جو موت ہے
یہ بھی اک طرح کا جہان ہے
کوئی راز، جس میں ہزار راز کے در کھلیں
یہ جو موت ہے
یہ بھی زندگی ہے کسی طرح کی چھپی ہوئی
کوئی ہنستا ہنستا مرے گا آج
تو کل کو ہنستا ہوا اٹھے گا خود اپنی موت
کی کوکھ سے
کوئی کوہ کن
اگر اپنے کام سے ہٹ گیا
کوئی کاریگر
اگر اپنے کام سے ہٹ گیا
کوئی کاریگر
اگر اپنے کام میں بٹ گیا
کوئی کہکشاں میں پڑا رہا
یا اگر کسی بھی گلی میں، شہر میں دشت میں یا کہیں بھی وقفِ نظر ہوا
وہ اٹھے گا کب
وہ گرا رہے گا سکوت میں
وہ پڑا رہے گا جمود میں
یہ اصول ہے
یہ جو موت ہے یہ اصول ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *