یہ زمیں اور آسماں مل کر

یہ زمیں اور آسماں مل کر
اب منائیں مرا نشاں مل کر
تاک میں کشتیوں کی رہتے ہیں
یہ ہوا اور یہ بادباں مل کر
وقت ضائع کیا ہے دونوں نے
ایسی غربت میں رائیگاں مل کر
چھین سکتا نہیں تمہیں مجھ سے
کر لے کوشش یہ سب جہاں مل کر
دشمنی اور نفرتوں کے سوا
کیا ملا ہے ہمیں یہاں مل کر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *