دھما ، دھوم، دھوم، دھما دھمم
ذرا رک کے
ٹھہر کے
سہج سہج کے شہر پڑھ
ذرا دھیرے دھیرے سے خوف سن
دھما، دھوم، دھوم، دھما، دھمم
ذرا ٹھہر ٹھہر کے
لکڑیاں
ذرا دھیرے دھیرے سے چن نصیب کی لکڑیاں
کسی شام، جنگلِ شام سے
یہ سپاہ ہے یا غلام ہیں
یہ درخت ہیں یا ہجوم ہے
جو ملنگ بیٹھے ہوئے ہیں دشتِ کلام میں
بڑے جھوم جھوم کے گم ہواؤں کا پیرہن
کبھی چوم چوم کے دیکھتے ہیں قریب سے
کبھی گھوم گھوم کے لیٹ جاتے ہیں خاک پر
دھما، دھوم، دھوم، دھمم
ذرا سہج سہج کے شہر پڑھ
ذرا دھیرے دھیرے سے خوف سن
دھما، دھوم، دھوم، دھما ، دھمم۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ