یہ شہرِ زاغ ہے اتنا قیاس ہی نہ رہا

یہ شہرِ زاغ ہے اتنا قیاس ہی نہ رہا
لگی جو آنکھ تو جسموں پہ ماس ہی نہ رہا
نہ ساحلوں پہ تری یاد ہے نہ کشتی ہے
تمہارے بعد سمندر اداس ہی نہ رہا
قدم قدم پہ کھٹکنے لگا ہے راہوں میں
تمہارا ہجر، کہ پہلے سا راس ہی نہ رہا
کسی کے ہاتھ میں پتھر نہ لب پہ گالی ہے
نیا زمانہ تو مجنوں شناس ہی نہ رہا
یہ لوگ دیتے رہے پردہ داریوں کو رواج
دل و نظر پہ حیا کا لباس ہی نہ رہا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *