یہ عجیب میری محبتیں

یہ عجیب میری محبتیں
کوئی پوچھ لے تو میں کیا کہوں
اُسے کیا بتاؤں
یہ روز و شب تو جنم جنم پہ محیط ہیں
میرے زخم زخم دل و نظر
مجھے اس جنم میں نہیں ملے
میرے رتجگے میرے ہمسفر
میرے ساتھ آج نہیں چلے
یہ مہیب وحشتِ فکر جو
میرے نقش نقش کی روح ہے
کوئی بے ثبات بیاں نہیں
یہ تو آتماؤں کا عکس ہے
یہ تو دیوتاؤں کا دھیان ہے
یہ تو جانے کیسی
صدی صدی کی اذیتوں کا گیان ہے
یہ عجیب میری محبتیں
یہ عجیب میرے غم و الم
یہ نصیب سنگِ سیاہ پر
یہ ورق ورق پہ گڑے قلم
یہ کڑا حصار نیا نہیں
میرا انتظار قدیم ہے
میرا اس سے پیار قدیم ہے
یہ عجیب میری محبتیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *