یہ میں کیسے سفر پر نکل کھڑا ہوا ہوں

یہ میں کیسے سفر پر نکل کھڑا ہوا ہوں
پیسے سے جسم کی تنہائی تو شاید دور کی جا سکے
لیکن روح کی تنہائی کیسے دور ہو
اور جب روح تنہا ہوتی ہے
تو کائنات تنہا ہو جاتی ہے
جب روح ویران ہو تی ہے
تو کائنات ویران ہو جاتی ہے
اور قیمتی کپڑے پہننے سے روح کی ویرانی کبھی دور نہیں ہوتی
بلکہ روح زیادہ کھوکھلی ہو جاتی ہے
روح کی ویرانی تو میلے کپڑوں سے بھی دور نہیں ہوتی
البتہ یہ اور بات ہے
کہ مزید کھوکھلی ہونے سے بچ جاتی ہے
میں نے دیکھا،
لوگ دکھی ہیں
اپنے اپنے دکھ میں
اپنی اپنی روحوں میں چھپائے
اپنی اپنی میتیں
اپنی اپنی دہلیزوں پر رکھے
چھپ چھپ کے روتے رہتے ہیں
میں گھبرایا!
یہ میں کیسے سفر پہ نکل کھڑا ہوا ہوں
یہ کیسا سفر ہے
لگتا ہے
سب کے سب اسی سفر پہ نکلے ہوئے ہیں
ساری دنیا
سارے لوگ
اپنے اپنے تلووں سے آبلے باندھے۔
مسافتوں کے نوکیلے دانتوں میں پاؤں دیے
قافلہ در قافلہ
فاصلہ در فاصلہ
اپنی اپنی طے شدہ منزل کی طرف بڑھنے کے دھوکے میں
اور دور ہوئے جاتے ہیں
ذرا اور آگے بڑھا
تو دیکھا
کچھ تھک گئے ہیں
اور مزار ڈھونڈتے پھر رہے ہیں
تا کہ کچھ دیر پناہ لے سکیں
یہاں پناہیں بھی تو صرف مزاروں ہی میں مل سکتی ہیں
چاہے اپنے ہوں
چاہے کسی اور کے
میں نے دیکھا
کچھ تھک گئے
اور کچھ تھک کے گر پڑے ہیں
اور چل نہیں سکتے
چل نہیں سکتے
بس پتھریلی اور سرد زمین پر
رخسار دھرے
آس پاس سے گزرنے والوں کے پاؤں دیکھتے جا رہے ہیں
اور لرز رہے ہیں
جانے کون سا پاؤں
کونسی ایڑی
سیدھی پیشانی پہ آ پڑے
ایڑی پیشانی پہ آپڑے
اور آنکھیں لہو سے بھر جائیں
آنکھیں لہو سے بھر جائیں
اور یہ آخری روشنی بھی جاتی رہے
اور پھر پتہ ہی نہ چلے
کب اور کیسے
کونسی ایڑی سینے پہ پڑی
اور کونسی دل پہ
آدھے دل،
آدھی ایڑیاں،
یا کُچلے جاؤ
یا کُچل دو
یا لرزتے رہو
کانپتے رہو
جب تک کُچلے نہیں جاتے
ایک اذیت سے دوسری اذیت تک
سسکاری سسکاری سسکتے رہو
تڑپتے رہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *