کہیں غم پرانے گھنڈر ہیں بس میں بسے ہوئے
کہیں دکھ پرانے قلعے ہیں خاک مَلے ہوئے
کہیں فوج گھوڑوں کی پُشت پر ہے بہت پرانی پڑی ہوئی
یہ نئے پرانے کا کھیل کتنا عجیب ہے
کسی تازہ درد کی واردات کی روشنی میں
بدن پہ لکھا ہوا اٹل ہے
تو پچھلے روگ کہاں سے آبِ شفا نچوڑ کے لائیں
دامنِ وقت سے
وہ جدائیاں جو نجانے کتنے برس
نگاہوں میں ریت بن کے جلی رہیں
وہ گلے جو گزرے ہوئے پلوں کی کلائیوں سے بندھے
گھِسٹتے رہے وفا کی لکیر پر
کوئی رنج خوردہ خیال بن کے
کسی مری ہوئی آہ کے تلے دب گئے
وہ کسی مری ہوئی آہ کے تلے دب گئے
کہیں شک کی تازہ عمارتیں کہیں بے حسی کی نئی نویلی سڑک
کہیں کسی راستے پہ پڑا ہوا کوئی جھوٹ سچ
کوئی المیہ
کہ جسے کسی نے ابھی ابھی کسی آستیں سے نکال کے
بڑا پونچھ پانچھ کے لا رکھا ہو خوشی خوشی
یہ نئے پرانے کا کھیل کتنا عجیب ہے
یہ نئے پرانے کا کھیل کتنا عجیب ہے
فرحت عباس شاہ