یہاں بارش نہیں ہوتی

یہاں بارش نہیں ہوتی
یہاں ایک مست سے ساون نہیں آیا
میں وہاں گیا
جہاں دھوپ کم کم نکلتی ہے
اور منظر سبزے میں لپٹے رہتے ہیں
تم وہاں نہیں ملے
پھر میں نے تمھیں گھنے درختوں والے جنگل
اور گنگناتی لہروں والے دریا کے آس پاس ڈھونڈا
تم وہاں بھی نہیں تھے
پھر میں سرد ہواؤں والی بستیوں میں گیا
بستیاں اکیلی تھیں
میں نے برف پوش چوٹیاں بھی کھوج ڈالیں
جو تمھارے بغیر چپ چاپ اور گم سم کھڑی ہوئی تھیں
پھر میں وہاں جا پہنچا
جہاں بارشیں ہوتی ہیں
اور تمھیں بہت تلاش کیا
ان بارشوں کا بھی کوئی نام کوئی چہرہ نہیں تھا
پھر میں تھک ہار کے لوٹ آیا واپس
اپنے خالی دل میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *