یہ ورود ہے یا خروج ہے یا نزول ہے

یہ ورود ہے یا خروج ہے یا نزول ہے
یہ عذاب جو بھی ہے، انتہا ہے عذاب کی
اسے سرزنش بھی نہ کر سکا میں کسی طرح
مری دسترس میں نہیں تھی خود مری دسترس
وہ جو رسیوں کو دراز کرتا ہے دور تک
ذرا میری رسی کو نرم کر دے تو سانس لوں
وہ جو تیرا میرا قیام تھا، اسے کیا ہوا
وہ جو تیرا میرا سفر تھا، کیسے پلٹ گیا
مری محنتوں کا زیاں ہوا تو یہ شک ہوا
کوئی پہریدار بٹھا گیا ہے نصیب پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *