یوں ترا نام زباں سے نکلا

یوں ترا نام زباں سے نکلا
جس طرح تیر کماں سے نکلا
میں اسے بھول چکا ہوں یارو
وہ مری آہ و فغاں سے نکلا
اس طرح دکھ نے مجھے گھیر لیا
سکھ مرے وہم و گماں سے نکلا
یہ نئی رات کہاں سے آئی
یہ نیا درد کہاں سے نکلا
ہم نے گھبرا کے پکارا جب بھی
ایک تو خیمہء جاں سے نکلا
عشق کا شیوہ رہا ہے ورنہ
کب کوئی سود و زیاں سے نکلا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *