سہرے

سہرے
خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزاده جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاه
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا
ناو بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہوگا اِس انداز کا گز بھر سِہرا
رُخ پہ دُولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر سِہرا
یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
ره گیا آن کے دامن کے برابر سِہرا
جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے پُھولوں کا بھی ایک مقرّر سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پُھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سِہرا
رُخ روشن کی دَمک، گوہرِ غلتاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فرُوغِ مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار
لائے گا تابِ گرانبارئ گوہر سِہرا!
ہم سُخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا!
ق
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا
ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائره لے، زہره نے گایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لئے جب سر پہ اُٹھایا سہرا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *