ملاذِ کشور و لشکر، پناهِ شہر و سپاه
جنابِ عالی ایلن برون والا جاه
بلند رتبہ وه حاکم وه سرفراز امیر
کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طرفِ کلاه
وه محض رحمت و رافت کہ بہرِ اہلِ جہاں
نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے جس کی نگاه
وه عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہیں شعلۂ آتش انیسِ پَرّ ہ کاه
زمیں سے سودہ گوہر اٹھے بجائے غبار
جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاه
وه مہرباں ہو تو انجم کہیں ” الٰہی شکر”
وه خشمگیں ہو تو گردوں کہے ” خدا کی پناه”
یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوه کے اطراف میں بہ ہر سرِ راه
ہزبر پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دُمِ رو باه
نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم
نہ بادشاه، ولے مرتبے ہیں ہمسرِ شاه
خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند
ستاره جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماه
زہے ستارہ روشن کہ جو اسے دیکھے
شعاعِ مہرِ درخشاں ہو اس کا تارِ نگاه
خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاه
جوان ہوکے کرے گا یہ وه جہان بانی
کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاه
کہے گی خلق اسے داورِ سپہر شکُوه
لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستاره سپاه
عطا کرے گا خداوندِ کارساز اسے
روانِ روشن و خوئے خوش و دلِ آگاه
ملے گی اس کو وه عقلِ نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ قطعِ خصومت میں احتیاجِ گواه
یہ ترکتاز سے برہم کرے گا کشورِ روس
یہ لے گا بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاه
سنینِ عیسوی اٹھاره سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاه
یہ جتنے سیکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاه