گزارش مصنّف بحضورِ شاه

گزارش مصنّف بحضورِ شاه
اَے شَہنشاهِ آسماں اَورنگ
اَے جہاندارِ آفتاب آثار
تھا میں اِک بے نَوَائے گوشہ نشیں
تھا میں اِک دردمندِ سینہ فگار
تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی
ہوئی میری وه گرمئ بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرہ ناچیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار
گر چہ از رُوئے ننگ و بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار
خانہ زاد اور مُرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شُکر
نسبتیں ہو گئیں مُشخّص چار
نہ کہُوں آپ سے تو کس سے کہوں
مُدعائے ضروری الاظہار
پِیر و مُرشد! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زَمہریر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں، ہے اگرچہ نَزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دُھوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار!
آگ تاپے کہاں تلک اِنسان
دُھوپ کھاوے کہاں تلک جاندار
دُھوپ کی تابِش، آگ کی گرمی!
وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار!
میری تنخواه جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو، ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار!
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی تکرار
میری تنخواه میں تہائی کا
ہوگیا ہے شریک ساہُو کار
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغزگوئے خوش گُفتار
رزم کی داستان گر سُنئیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر دار
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری ابرِ گوہر بار
ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بنده، اور پِھروں ننگا؟
آپ کا نوکر، اور کھاوں اُدھار؟
میری تنخواه کیجے ماه بہ ماه
تا، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار
ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام:
(شاعری سے نہیں مجھے سروکار)
تُم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *