مدحِ شاه دوم

مدحِ شاه
ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کررہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب؟
“بنده عاجز ہے، گردشِ ایّام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام”
مرحبا اے سرورِ خاصِ خواص
حبّذا اے نشاطِ عامِ عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیئے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام
ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیاکہیں نمّام؟
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امیدگاهِ انام
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام؟
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تُو
تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام
مہرِ تاباں کو ہو تو ہو، اے ماه!
قربِ ہر روزه بر سبیلِ دوام
ق
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریبِ عیدِ ماهِ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماهِ تمام
ماه بن، ماہتاب بن، میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دےگا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص
گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ عام
جو کہ بخشےگا تجھ کو فرِّ فروغ
کیا نہ دےگا مجھے مئے گلفام؟
جبکہ چوده منازلِ فلکی
کرچکے قطع تیری تیزئ گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام
پھر غزل کی روِش پہ چل نکلا
توسنِ طبع چاہتا تھا لگام
غزل
زہرِ غم کرچکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیئے جاوں؟
غم سے جب ہو گئی ہے زیست حرام
بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وه لذّتِ دشنام
کعبے میں جابجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام
اس قدح کا ہے دَور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردشِ ایّام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام
کہ چکا میں تو سب کچھ، اب تُو کہ
اے پری چہره پیکِ تیز خرام
کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہره و بہرام
تُو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاه
مظہرِ ذوالجلال والاکرام
شہسوارِ طریقۂ انصاف
نوبہارِ حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنئ الہام
بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رستم و سام
اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام
چشمِ بد دور! خسروانہ شکُوه
لوحش لله! عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم
جُرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام
وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیزن و رَ ہّام
مرحبا مو شگافئ ناوک
آفریں آب دارئ صمصام
تیر کو تیرے تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری تیغِ خصم نیام
ق
رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیلِ گراں جسد کی صدا
تیرے رخشِ سبک عناں کا خرام
ق
فنِ صورت گری میں تیرا گُرز
گر نہ رکھتا ہو دستگاهِ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورتِ ادغام؟
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہائے لیالی و ایّام
اور ان اوراق میں بہ کلکِ قضا
مجملاّ مندرج ہوئے احکام
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کُش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبدِ تیز گردِ نیلی فام
حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضعِ سوز و نم و رم و آرام
مہرِ رخشاں کا نام خسروِ روز
ماهِ تاباں کا اسم شحنۂ شام
تیری توقیعِ سلطنت کو بھی
دی بدستور صورتِ ارقام
کاتبِ حکم نے بموجبِ حکم
اس رقم کو دیا طرازِ دوام
ہے ازل سے روانئ آغاز
ہو ابد تک رسا ئِی انجام
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *