کاشکے ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں، اور کھلے، یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا
واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا
ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا
مُفت کا کس کو بُرا ہے بدرقَہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا
سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک
آگ بھڑکی، مینہ اگر دم بھر کھلا
نامے کے ساتھ آ گیا پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر مہ و خورشید کا دفتر کھلا
خامے نے [1] پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی، اٹھتے ہی لنگر، کھلا
مدح سے، ممدوح کی دیکھی شکُوہ
یاں عَرَض سے رُتبۂ جوہر کھلا
مہر کانپا، چرخ چکّر کھا گیا
بادشہ کا رائتِ لشکر کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب عُلوِّ پایۂ مِنبر کھلا
سِکۂ شہ کا ہوا ہے رو شناس
اب عِیارِ آبروئے زر کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب مآلِ سعیِ اِسکَندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا خَلق نے
اب فریبِ طغرل و سنجر کھلا
ہو سکے کیا مدح، ہاں، اک نام ہے
دفترِ مدحِ جہاں داور کھلا
فکر اچھّی پر ستائش نا تمام
عجزِ اعجازِ ستائش گر کھلا
جانتا ہوں، ہے خطِ لوحِ ازل
تم پہ اے خاقانِ نام آور! کھلا
تم کرو صاحب قِرانی، جب تلک
ہے طلسمِ روز و شب کا در کھلا!
1. نسخۂ مہر میں ” پائیں” (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے: خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔ دونوں طرح شعر تقریباً ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے: بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھلا
یہ صریحاً سہوِ کتابت ہے۔ لنگر اٹھتا، بادبان کھلتا ہے۔ (حامد علی خان)