تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس [1] ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے وہ تِرا [2] جلوہ گاہ ہو
غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو
1. حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہے، حق نا شناس۔ حسرت، مہر اور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔(اعجاز عبید) مزید: نسخۂ نظامی طبع اول میں “حق ناسپاس” چھپا ہے۔ ایک آدھ اور قدیم نسخے میں بھی یونہی ملا ہے مگر بعض دوسرے قدیم نسخوں میں “ناشناس” بھی چھپا ہے۔ جدید نسخوں میں مالک رام نے متن میں “ناسپاس” اور طباطبائی، حسرت موہانی، عرشی اور مہر وغیرہم نے “ناشناس” درج کیا ہے۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خان)
2. نسخۂ نظامی طبع اول میں اور دیگر نسخوں میں بشمول نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ طباطبائی و نسخۂ عرشی، یہاں “ترا” ہی درج ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول اور نسخۂ مہر میں “تِری” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)