رفتارِ عمر قطعِ ره اضطراب ہے

رفتارِ عمر قطعِ ره اضطراب ہے
رفتارِ عمر قطعِ ره اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے
بالِ تَدَر و جلوہ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
جادادِ باده نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظّاره کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *