کی وفا ہم سے تو غیر اِس [1] کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرگیا [2] کہتے ہیں
اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو، جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم “نامِ خدا” کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
1. یہاں “اِس” کی بجائے “اُس” نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں “اِس” ہی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
2. فارسی میں گھاس کے لیے “گیاہ” اور “گیا” دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی رائے ہے کہ لفظ “گیا” خشک گھاس کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں بھی لغت نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے ۔ اس کے مفاہیم میں محبوب، رخِ نگار، سبزۂ خط، سورج مکھی، نیز مردم گیا کی دو شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی جاتی ہے، شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ (حامد علی خاں)