لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے
ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے
وہ نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ!
ساتھ حُجّاج کے اکثر کئی منزِل آئے
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
“لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے”
دیدہ خوں بار ہے مدّت سے، ولے آج ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے
سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے، نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر، تیرے مقابِل آئے
اب ہے دِلّی کی طرف کوچ ہمارا غالبؔ!
آج ہم حضرتِ نوّاب سے بھی مِل آئے