ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب؟
“بندہ عاجز ہے، گردشِ ایّام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام”
مرحبا اے سرورِ خاصِ خواص
حبّذا اے نشاطِ عامِ عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام [1]
ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمّام؟
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہِ انام
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام؟
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تُو
تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام
مہرِ تاباں کو ہو تو ہو، اے ماہ!
قربِ ہر روزہ [2] بر سبیلِ دوام
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریبِ عیدِ ماہِ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہِ تمام
ماہ بن، ماہتاب بن، میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص
گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو فرِّ فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام؟
جبکہ چودہ منازلِ فلکی
کر چکے [3] قطع تیری تیزیِ گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام
پھر غزل کی روِش پہ چل نکلا
توسنِ طبع چاہتا تھا [4] لگام
1. نسخۂ نظامی: جائے، آئے۔۔ نسخۂ شِو نرائن : جاوے، آوے۔ (حامد علی خان)
2. بعض نسخوں میں ” ہر روزہ” کی جگی “ہر روز” چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔(حامد علی خان)
3. بعض نسخوں میں غلط فہمی کی بنا پر ” چکے” کی جگہ “چکی” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)
4. بعض مروجہ نسخوں میں “چاہتا ہے لگام” چھپا ہے۔ جو غلط ہے۔ (حامد علی خان)