نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمۂ موج کم از سیلیِ استاد نہیں
وائے مظلومیِ تسلیم! و بداحالِ وفا!
جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں
رنگِ تمکینِ گُل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟
گر چراغانِ سرِ راہ گُزرِ باد نہیں
سَبَدِ گُل کے تلے بند کرے ہے گلچیں!
مژدہ اے مرغ! کہ گلزار میں صیّاد نہیں
نفی سے کرتی ہے اثبات [1] طراوش [2] گویا
دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد “نہیں”
کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟
1. “اثبات” غالباً بالاتفاق مذکر ہے۔ غالب نے خود دوسری جگہ اس لفظ کو مذکر استعمال کیا ہے۔ تاہم غالب کا یہ شعر اس لفظ کی تانیث کا بھی جواز پیدا کر دیتا ہے۔ (حامد علی خاں)
2. نسخۂ مہر اور نسخۂ حامد علی خان میں ’تراوِش‘ (جویریہ مسعود)