نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے

نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگا دے [1] خانۂ آئینہ میں رُوئے نگار آتِش
فروغِ حُسن سے ہوتی [2] ہے حلِّ مُشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پاسے، نکالے گر نہ خار آتش
1. بیشتر نسخوں میں “لگا دے” کی جگہ “لگاوے” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
2. ممکن ہے غالب نے یہاں “ہوتا ہے” کہا ہو اور “ہوتی ہے” سہوِ مرتبین ہو۔ (حامد علی خاں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *